Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر16

عدیل کی مام ، بڑے پیار اور اہتمام سے اسے عدیل کے کمرے میں چھوڑ کر آئیں۔
شکر تھا کہ عدیل اپنے روم میں نہیں تھا۔۔ ورنہ وہ بے چاری، اسے کیسے فیس کرتی۔۔!!
فوزیہ بیگم کے جانے کے بعد اس نے احتیاط سے کمرے کے باہر جھانکا، اور پھر واپس اندر آ کر اپنی ساری چیزیں اٹھائیں۔۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ عدیل کے آنے سے پہلے ہی اپنے دوسرے والے کمرے میں چلی جائے گی۔۔ اور اس کو ، اس کے آنے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔
اسی لیے وہ تیزی سے اپنی چیزیں اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھی تھی لیکن سامنے سے آتے عدیل کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئی، اس وقت اسے اپنی اچھی خاصی بے عزتی محسوس ہوئی، "اف۔۔!! کیا سوچ رہا ہوگا یہ۔۔!! کتنی بے شرم ہوں میں۔۔ بن بلائے ہی اٹھ کر آ گئی۔۔!!" وہ زمین میں گڑھنے والی ہورہی  تھی اور اوپر سے عدیل کا اپنی حیران نظروں سے اسے گھورنا۔۔ اسے مزید کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔
دوسری طرف، عدیل کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت یہاں ہوگی۔۔!! اسے ، عنقا کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ لیکن اس عقل کے آدھے انسان نے اپنی خوشگواری کا تاثر کہیں اندر چھپاتے ہوئے صرف حیرت کا مظاہرہ کیا۔
"تم۔۔یہاں۔۔؟؟" اس نے پوچھا۔
اس کے پوچھنے پر عنقا کو مزید انسلٹ فیل ہوئی۔
"ہمم۔۔!! انکل آنٹی زبردستی لائے ہیں۔۔" اس نے بات بنائی۔
"اچھا اچھا۔۔!! یہ بات ہے۔۔!! میں سمجھا شوہر کی یاد ستا رہی تھی ، اس لیے بن بلائے بھاگی بھاگی چلی آئیں،" عدیل نے زور دار قہقہہ لگا کر اسے چڑاتے ہوئے کہا۔ وہ اس کی شکل دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ وہ اس وقت کیسا فیل کر رہی ہے، اس لیے، اس نے جان بوجھ کر ستانے کے لیے ایسی بات کی۔
"غلط فہمیاں۔۔!! تو دیکھو اپنی۔۔!! مجھے کیا پڑی ہے کسی جنگلی کو یاد کرنے کی، اور تم ناں۔۔ میرے راستے سے ہٹو۔۔ مجھے اپنے روم میں جانا ہے۔۔!!" وہ تیز لہجے میں بولی۔
اپنے لیے جنگلی کا لفظ سن کر ، عدیل کو تاؤ آیا، "اے لڑکی۔۔!! ذرا زبان سنبھال کے بات کیا کرو۔۔!! سخت چڑھ ہے مجھے اس لفظ سے۔۔ اب تم نے دوبارہ کہا ناں تو کچھ بہت برا کر دوں گا تمہارے ساتھ۔۔ اور ہزار بار بولا ہے کہ ذرا ادب لحاظ سے بات کرنا سیکھو۔۔ یہ مجھے "تم" مت کہا کرو۔۔!!" عدیل نے بالکل سیریس ہو کر وارننگ دی۔
"مسٹر جنگلی۔۔!! تم مجھے زہر لگتے ہو۔۔ انفیکٹ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔ اس لیے مجبوری ہے۔۔ ادب نہیں کر سکتی تمہارا۔۔" عنقا نے بھی سلگتے لہجے میں جواب دے کر اپنا بدلہ پورا کیا۔۔ وہ بھی تو کیسے واپس آنے والی بات پر اسے ایمبیریس (embarrass) کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ اس کی ہٹ دھرمی پر کڑے تیوروں سے گھورنے لگا۔
"یہ مجھے گھورنا بند کرو۔۔ اور راستہ دو۔۔ مجھے اپنے روم میں جانا ہے۔۔" عنقا نے بدتمیزی سے کہا۔
"تم ایسے نہیں سدھرا گی۔۔!! تمہارا علاج کرنا پڑے گا۔۔!!" وہ قہر برساتی نظروں سے گھورتا ہوا اس کے قریب آیا۔ اس کے وحشت ناک تیور دیکھ کر۔۔ عنقا کی تو ساری داداگری جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔۔ اسے، عدیل کے ایکسپریشنز ڈرنے پر مجبور کر رہے تھے۔
اسے دھڑکا سا لگا کہ اللّٰه جانے ، یہ آدمی کیا غضب ڈھانے والا ہے۔۔!! وہ ابھی تک اس کا ، گلا دبانے والا اٹیک (attack) نہیں بھولی تھی۔۔!! اس کی ڈر اور توقعات کے خلاف جاتے ہوئے۔۔ عدیل نے کوئی وحشیانہ حرکت نہیں کی ، بلکہ اس کے ہاتھ سے اس کا سامان لیا۔۔ اس میں سے کتابیں علیحدہ کر کے، اپنی کتابوں کے ریک پر، اس کی بکس کے جگہ بنا کر ان کو وہاں رکھا۔ جو تھوڑے بہت کپڑے اور دوسری چیزیں تھیں ، ان کو بذات خود، واڈروب میں رکھا۔
وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے سخت ایکسپریشنز کے آگے، وہ کچھ بولنے کی ہمت نہ کرپائی۔ 
وہ سب چیزوں کو ان کی جگہ پر رکھ کر اس کی طرف پلٹا۔۔!!
"کہیں نہیں جاؤ گی تم۔۔!! یہ ہی تمہارا روم ہے۔۔ اور یہاں سے کہیں جانے کی سوچی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔!!" اس نے ، اپنی شہادت کی انگلی لہراتے ہوئے، سختی سے وارن کیا۔
عنقا کا تو حلق خشک ہونے لگا تھا۔۔ "وہ۔۔ وہ۔۔ میں نے  پڑھنا ہوتا ہے۔۔!! ایگزامز ہونے والے ہیں میرے۔۔!! میں یہاں کیسے پڑھوں گی۔۔!!" وہ منمائی۔ 
"پڑھ لینا یہیں پر۔۔ میں نے پڑھنے سے تو منع نہیں کیا۔۔بس یہاں سے باہر نہیں جاؤ گی۔۔!!" اس نے حکم دیا۔
"نہیں نہیں۔۔ ایسے نہیں کرو۔۔ اس طرح۔۔ تمہاری موجودگی میں تو بالکل مجھ سے کچھ نہیں پڑھا جائے گا۔۔!! پلیز جانے دو۔۔!! دیکھو میں تمہیں آئیندہ جنگلی بھی نہیں کہوں گی۔۔!! اور بدتمیزی کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔۔!! سچی۔۔!! پلیز جانے دو۔۔!!" وہ باقاعدہ منتیں کرنے پر اتر آئی تھی۔۔ واقعی۔۔ وہ اس کے ہوتے ہوئے کیسے پڑھ سکتی تھی۔۔ اگر وہ سامنے ہوتا تو اس کا سارا دھیان اپنی طرف کھینچے رکھتا۔
لاشعوری طور پر اسے یہ اندیشہ تھا۔۔ جس کے پیش نظر وہ الگ روم۔۔ میں جانے کی اتنی منتیں کر رہی تھی۔
عدیل، اس کی حالت سے اچھا خاصا لطف اندوز ہوا۔
"نہیں مسز۔۔!! آپ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گی۔۔!! اور میں آپ کو اب آخری دفع کہہ رہا ہوں کہ مجھے "تم" نہیں کہنا۔۔!!" عدیل نے جلانے والی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے کہا۔
اور عنقا واقعی جل کر رہ گئی تھی۔
"عدیل۔۔ پلیز۔۔ جانے دیں ناں مجھے۔۔ دیکھیں ۔۔!! یہاں ایک لفظ بھی نہیں پڑھا جائے گا مجھ سے۔۔ آپ میری پرابلم کو سمجھیں ناں۔۔!!" اس نے مصلحت کا کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے، عدیل کے حکم کی تعمیل کی کہ شاید اس کو عنقا پر ترس آئے اور وہ اسے جانے دے دے۔ 
اس وقت ایسے منتیں کرتے ہوئے۔۔ وہ اسے بہت معصوم لگی۔۔ ساتھ ہی اس بے چاری کی حالت پر ، اسے مزہ بھی خوب سارا آیا۔۔!! جو بھی تھا۔۔!! بے شک وہ اس کی بات مان چکی تھی لیکن یہ اس کی بات نہیں ماننے والا تھا۔۔ اس نے سوچ لیا تھا۔۔ کہ اس کو اچھی طرح تنگ کرے گا۔۔!!
ابھی اس نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ وہاں عادل آ دھمکا۔۔ عنقا کو وہاں دیکھ کر وہ سرپرائز ہوا تھا لیکن اب اس کا ، اس سے کیا لینا دینا سو وہ اپنی مام کا پیغام عدیل تک پہنچا کر واپس چلا گیا۔
مام نے عدیل کو بلوایا تھا۔ وہ ان کے پاس گیا۔۔ اس نے بلانے کا مقصد پوچھا تو مام نے اتنا لمبا لیکچر دیا۔۔کہ عنقا کے ساتھ اب کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہ کرے، اسے پیار سے ڈیل کرے ، اس کا خیال رکھے اور وغیرہ وغیرہ۔۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے عدیل سے اپنی ساری نصیحتوں پر عمل کرنے کا وعدہ بھی لیا۔ اور وہ بھی مزے سے پرامس کر کے آ گیا۔
اب اس کا بھی دل کرتا تھا کہ وہ نارمل لوگوں کی طرح سکون سے رہے۔۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے سے جڑے رشتوں کو مان دے، ان کی خواہشات کا احترام کرے، خاص طور پر اپنے مام ،ڈیڈ کا کہا مانے۔۔ نہ کہ اپنی من مانیاں کرتے ہوئے ان کے لیے پریشانیاں پیدا کرے۔۔!! اس لیے۔۔ اس نے اپنی مام سے پرامس کیا۔
××××
عدیل کے جاتے ہی عنقا پریشانی سے، وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی، "کاش کہ میں یہاں نہ آتی۔۔!!" اس نے افسوس سے سوچا۔۔!!
وہ ابھی کسی طرح واپس جانے کی کو سکیم سوچنے لگی تھی کہ اس کی امی کی کال آئی۔۔ انہوں نے سلام دعا کے بعد ، فوراً ہی اسے اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ اور اس کے بابا ، تقریباً ڈیڑھ ہفتے کے لیے اس کے ماموں کے ہاں جا رہے ہیں۔۔ اس لیے وہ گھر واپس آنے کے متعلق سوچنے کی بھی کوشش نہ کرے۔
وہ بھی اس کی ماں تھیں، اس کی رگ رگ سے واقف تھیں۔۔ اس لیے انہوں نے پہلے ہی سے اس کی واپسی کے سارے دروازے بند کیے۔

   1
0 Comments